متحدہ پاکستان میں
ہر پانچویں فلم
مشرقی پاکستان میں بنی تھی
1947ء میں جب ایک جمہوری عمل اور وؤٹ کی طاقت سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس کا سب سے بڑا صوبہ مشرقی بنگال تھا جو 1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کہلایا۔ بدقسمتی سے ریاستی جبرو زیادتی کے خلاف مسلح بغاوت کے نتیجے میں جو خونریز خانہ جنگی ہوئی ، اس کا نتیجہ 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں کتنی فلمیں بنیں؟
متحدہ پاکستان کے چوبیس برسوں میں 1971ء کے اختتام تک کل 1.134 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے 213 فلمیں یا ہر پانچویں فلم (19فیصد) مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بنی تھیں۔
ان 213 فلموں میں سے صرف 58 اردو فلمیں تھیں یا ہر چوتھی فلم ایک اردو فلم تھی۔ ان اردو فلموں میں سے بھی بیشتر فلمیں ڈبل ورژن فلمیں تھیں یعنی انھیں بنایا تو بنگالی زبان میں گیا تھا لیکن پھر انھیں اردو میں ڈب کر کے مغربی پاکستان (یا موجودہ پاکستان) میں ریلیز کیا جاتا تھا۔ ایسی فلموں میں تلاش (1963) اور چکوری (1967) وغیرہ بہت بڑی مثالیں ہیں۔
مشرقی پاکستان کی پہلی اردو اور بنگالی فلمیں
مشرقی پاکستان کی پہلی بنگالی فلم مکھ و مکھوش (1956) تھی جبکہ پہلی اردو فلم جاگو ہوا سویرا (1959) تھی۔ آخری اردو فلم مہربان (1971) تھی۔
ڈھاکہ کی بنی ہوئی فلموں پر تفصیلی معلومات ، 2009 میں پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں دی جا چکی ہیں جس میں فلموں کے علاوہ خاص خاص فنکاروں کا تعارف بھی شامل ہے۔
مشرقی پاکستان کی فلمیں عام طور پر بڑی کمزور فلمیں ہوتی تھیں جو تجارتی بنیادوں پر خسارے کا سودا ہوتی تھیں۔ ان 58 اردو فلموں میں سے صرف نو فلمیں ، یعنی چندا (1962) ، تلاش (1963) ، ملن (1964) ، مالا (1965) ، بھیا (1966) ، چکوری ، درشن ، چھوٹے صاحب اور نواب سراج الدولہ (1967) ہی کامیاب فلمیں تھیں جو کل فلموں کا صرف 16 فیصد بنتا ہے۔ یہ فلمیں بھی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود محض اردو فلمیں ہونے کی وجہ سے صرف کراچی تک ہی محدود رہتی تھیں اور باقی ملک میں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی تھی۔
مشرقی پاکستان کے نامور فنکار
مشرقی پاکستان
کے چند گنے چنے فنکار تھے جنھیں مغربی پاکستان میں بھی مقبولیت ملی تھی
مشرقی پاکستان کے چند گنے چنے فنکار تھے جنھیں مغربی پاکستان میں بھی مقبولیت ملی تھی۔ ان میں شبنم ، رحمان ، شبانہ اور نسیمہ خان کے علاوہ ہدایتکاروں میں نذرالسلام اور احتشام تھے اور موسیقاروں میں صرف روبن گھوش کا نام ملتا ہے۔ ڈھاکہ کی ان فلموں میں سوائے موسیقی کے کوئی بھی شعبہ قابل ذکر نہیں ہوتا تھا۔
مشرقی پاکستان کی فلموں میں مغربی پاکستان کے فنکاروں کی شرکت سے مزید کشش پیدا ہو جاتی تھی اور ان کی مارکیٹ ویلیو میں اضافہ بھی ہو جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی اردو اور ڈبل ورژن فلموں میں زیادہ تر گیت فردوسی بیگم اور بشیر احمد کے ہوتے تھے جبکہ مغربی پاکستان کے گلوکاروں میں سے احمدرشدی ، آئرن پروین ، مالا اور مسعودرانا نے سب سے زیادہ گیت گائے تھے۔
مشرقی پاکستان میں مسعودرانا کی پہلی فلم
مشرقی پاکستان کی پہلی فلم مالن (1964) تھی جس میں مسعودرانا کے دو انتہائی دلکش دوگانے تھے جو کراچی سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ نسیمہ شاہین کے ساتھ گائے گئے تھے
- آپ نے جو پیار کیا ہے ، آپ کاشکریہ۔۔
- سیاں رے ، چھوڑ دے موری بھینیا۔۔
اس فلم کے موسیقار نذیر شیلے تھے جن کی اس کے علاوہ صرف ایک اور فلم غریب (1960) تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں فردوسی بیگم کے گیت بھی تھے جو ڈھاکہ فلموں کی سب سے مقبول ترین گلوکارہ تھی۔ مسعودرانا کے ساتھ اس کا کوئی گیت نہیں ملتا اور نہ ہی کسی بنگالی گیت کا ذکر ملتا ہے جو رانا صاحب نے گایا ہو۔
اس فلم کی جوڑی نسیمہ خان اور دیپ کمار نامی اداکاروں کی تھی اور فلمساز ، ہدایتکار اور کہانی نویس قیصر پاشا تھے۔
مسعودرانا کی مشرقی پاکستان کی دوسری فلم ، فلمساز اور ہدایتکار احتشام کی ساگر (1965) تھی جس میں آئرن پروین کے ساتھ گایا ہوا ایک اور اعلیٰ پائے کا رومانٹک گیت تھا
یہ گیت سرور بارہ بنکوی کا لکھا ہوا تھا اور اس گیت کی دھن خان عطاالرحمان نے بنائی تھی۔ وہ ایک فلمساز ، ہدایتکار ، کہانی نویس کے علاوہ اداکار بھی تھے اور ڈھاکہ میں بننے والی پہلی اردو فلم جاگو ہوا سویرا (1959) میں انیس کے نام سے ہیرو کے طور پر بھی نظر آئے تھے۔
اس فلم کی ہیروئن شبنم تھی جبکہ اس میں بنگالی فلموں کے تین ممتاز اداکار عظیم ، ہارون اور شوکت اکبر کے علاوہ اداکارہ شبانہ بھی تھی جس کو رتنا کے نام سے متعارف کروایا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان کی ایک فلم جو ایک "غدار پاکستان" نے بنائی
مشرقی پاکستان کی فلم بہانہ (1965) جو زیادہ تر کراچی میں بنی تھی ، مسعودرانا کی تیسری فلم تھی جس میں ان کے تین گیت تھے
- شہر کا نام ہے کراچی ، بچ کے رہنا یہاں۔۔
- ایسی کراچی سے تو ہم باز آئے۔۔
- آج میرے دل کی کلیاں کھلنے کا زمانہ آیا۔۔
اس فلم کے موسیقار بھی خان عطاالرحمان تھے اور تمام گلوکار مغربی پاکستان سے تھے۔
اس فلم کے مرکزی کردار کابوری اور رحمان تھے جبکہ فلمساز اور ہدایتکار قاضی ظہیر ریحان تھے جو ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ثابت ہوئے تھے۔ موصوف نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا تھا اور جنگ کے دنوں میں فرار ہو کر کلکتہ چلے گئے تھے جہاں سے انھوں نے پاک فوج کے مبینہ جنگی جرائم پر ایک انگلش دستاویزی فلم "سٹاپ جینوسائڈ" بنائی تھی جو دنیا بھر کے میڈیا میں دکھائی گئی تھی۔ ان کے اس کردار کی وجہ سے مبینہ طور پر ان کی آخری فلم جلتے سورج کے نیچے (1971) کے ہدایتکار کے طور پر ایک جعلی نام دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بہت سے دیگر ریاست مخالف عناصر کی طرح وہ بھی ایسے لاپتہ ہوئے کہ پھر کبھی زندہ ملے نہ مردہ۔۔!
پاکستان کی پہلی رنگین سینما سکوپ فلم
مسعودرانا کی مشرقی پاکستان میں چوتھی فلم مالا (1965) تھی جو پاکستان کی پہلی رنگین سینما سکوپ فلم تھی۔ اس سے قبل پہلی رنگین فلم سنگم (1964) بھی ڈھاکہ ہی میں بنائی گئی تھی جبکہ مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم اک دل دو دیوانے (1964) تھی۔ اس سے قبل گل بکاؤلی (1961) اور عذرا (1962) جزوی رنگین فلمیں تھیں۔
اس فلم کے ہدایتکار مستفیض تھے جو فلمساز احتشام کے بھائی تھے۔ موسیقار ایک بار پھر خان عطاالرحمان تھے جبکہ سروربارہ بنکوی کے تمام گیت مغربی پاکستانی گلوکاروں نے گائے تھے۔ مسعودرانا کا اس فلم میں آئرین پروین اور ساتھیوں کے ساتھ ایک کورس گیت تھا
- آؤ آج ، چلو ری سکھی ، آج منگل منائیں۔۔
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا
مشرقی پاکستان کی یادگار فلموں میں ایک فلم بھیا (1966) تھی جس میں مسعودرانا کا دھیمی سروں میں گایا ہوا ایک انتہائی دلکش گیت
- جواب دو نہ دو ۔ لیکن میرا سلام تو لو۔۔
پہلا گیت تھا جو رومانٹک فلموں کے سب سے مقبول اداکار وحیدمراد پر فلمایا گیا تھا جن کی یہ اکلوتی ڈھاکہ میڈ فلم تھی۔ چترا سنہا ہیروئن تھی اور شوکت اکبر نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایتکار بھی قاضی ظہیر ریحان تھے۔
اس فلم کی پہچان ایک مشہور زمانہ قوالی تھی
- مدینے والےﷺ سے میرا سلام کہہ دینا۔۔
یہ روبن گھوش کی اکلوتی فلمی قوالی تھی اور ان کے ساتھ مسعودرانا کی پہلی فلم تھی۔ یہ قوالی انھوں نے احمدرشدی ، محمد صدیق اور ساتھیوں کے ساتھ گائی تھی جسے شاعر صدیقی نے لکھا تھا۔
تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے
مسعودرانا کی مشرقی پاکستان میں بننے والی چھٹی فلم چاند اور چاندنی (1968) تھی جو نغمات کے لحاظ سے سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔
- تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔
- تجھے پیار کی قسم ہے ، میرا پیار بن کے آجا۔۔
- یہ سماں ، موج کا کارواں۔۔
جیسے لازوال گیت سروربارہ بنکوی نے لکھے تھے لیکن ان کی موسیقی کریم شہاب الدین نے ترتیب دی تھی جن کا تعلق کراچی سے تھا۔ ہدایتکار احتشام کی اس فلم کی جوڑی شبانہ اور ندیم پر مشتمل تھی۔ ندیم اور مسعودرانا کی یہ پہلی مشترکہ فلم تھی۔
اے ماں ، پیاری ماں
شبانہ اور ندیم ہی کی جوڑی کی فلم قلی (1968) ، مسعودرانا کی ساتویں فلم تھی جو مشرقی پاکستان میں بنی تھی۔ اس کے ہدایتکار مستفیض تھے۔ اس فلم کی موسیقی علی حسن کی تھی اور نغمات سروربارہ بنکوی اور شاعر صدیقی نے لکھے تھے۔ اس فلم کا سب سے یادگار گیت مسعودرانا اور احمدرشدی کا گایا ہوا یہ دوگانا تھا
- قدموں میں تیرے جنت میری ، تجھ سا کوئی کہاں ، اے ماں ، پیاری ماں۔۔
یہ گیت ندیم اور عظیم پر فلمایا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں مہدی حسن کی اکلوتی فلم
مسعودرانا کی ڈھاکہ میں بنی ہوئی آٹھویں فلم داغ (1969) تھی جو ہدایتکار احتشام کی ایک اور فلم تھی۔ اس فلم میں موسیقار علی حسن کی دھن میں خانصاب مہدی حسن کی ایک انتہائی دلکش غزل تھی
- تم ضد تو کررہے ہو ، کیسے تمہیں بتاؤں۔۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی فلموں میں یہ مہدی حسن کا اکلوتا گیت تھا۔
اس فلم کے دوسرے موسیقار ، روبن گھوش کا واحد گیت ، مسعودرانا اور آئرن پروین کے آوازوں میں گایا ہوا دھیمی سروں میں یہ ایک انتہائی دلکش گیت تھا
- آ جاؤ ذرا مل بیٹھیں ہم ، کچھ کہہ لیں گے ، کچھ سن لیں گے۔۔
یہ گیت ندیم اور شبانہ پر فلمایا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں مسعودرانا کی آخری فلم
مسعودرانا کی نویں اور آخری فلم جو ڈھاکہ میں بنی ، وہ پائل (1970) تھی۔ یہ احتشام اورمستفیض برادران کی ایک اور کاوش تھی۔ اس فلم کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے۔ مسعودرانا کے سوا باقی سبھی گلوکار ، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ مسعودرانا کا اکلوتا دوگانا ، سبینہ یاسمین نامی گلوکارہ کے ساتھ تھا
- ہو بل کھاتی ندیا ، لہروں میں لہرائے۔۔
یہ گیت شبانہ اور انیس جاوید نامی اداکار پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو رزاق تھے جو آگے چل کر بنگالی فلموں کے سپر سٹار بنے تھے۔
مشرقی پاکستان کی یہ پہلی اور آخری فلم تھی جس کا پوسٹر آج تک میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ ہمارے مقامی سینما پر اس فلم کو مشرقی پاکستان کی آخری فلم لکھا گیا تھا جو صحیح نہیں ہے ، آخری فلم مہربان (1971) تھی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی کو پروڈکشنز
مندرجہ بالا "پاکستانی" فلموں کے علاوہ جب پاکستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ کوپروڈکشن کا آغاز کیا تھا تو تین فلمیں ایسی ملتی ہیں کہ جن میں مسعودرانا کے گیت تھے۔ زمین آسمان (1985) ، لو ان لندن (1987) اور مضبوط (1993) ، اس تیسری فلم میں مسعودرانا کا اے نیر کے ساتھ ایک دوگانا
- دوستی ہے زندگی ، زندگی ہے دوستی۔۔
نیپالی اداکار شیوا اور بنگلہ دیشی اداکار جانی پر فلمایا گیا تھا جبکہ فلم زمین آسمان (1985) کا یہ گیت پلے بیک تھا: